سخت سردیوں کے دن تھے اس وقت پنجاب کے لیے بسوں کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ لہٰذا ریل ہی کے ذریعے سفر کرنا پڑتا تھا۔ نیز ان دنوں اسٹیشنوں پر بڑا رش رہتا تھا۔ بڑی دھکم پیل ہوتی تھی بعض اوقات پورا پورا دن ٹرین نامعلوم مقام پرہوتی۔ چونکہ میرے استاد محترم کی ہمشیرہ گوجرانوالہ میں ہوتی تھی لہٰذا ان کو گوجرانوالہ کسی ضروری کام کے لیے جانا تھا جب اسٹیشن پر پہنچے اتنا رش کہ اللہ کی پناہ اور مسافر کھڑکیوں کے را ستہ اندر داخل ہونے کی کوششیں کررہے تھے۔ اتنے میں کسی صاحب نے موصوف (عبداللطیف نور) کے کندھے پر ہاتھ رکھا جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو جن صاحب نے ہاتھ رکھ کر متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی وہ تو قصہ خوانی بازار کے ایک دکاندارتھے۔ انہوں نے میرے کان میں کچھ کہا تو میرا چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا اور فوراً میں نے سہارا لینے کے لیے ان صاحب کاسہارا لیا اور ان صاحب نے نعرہ لگایا۔ لوگو! اللہ کا خوف کرو یہ بچہ بیمار ہے۔ میں اسے لاہور ڈاکٹر کو دکھانے جارہا ہوں اللہ کے لیے اس بچے کو ٹرین میں سوار ہونے دو پھر کیا تھا۔ سب لوگ فوراً ایک طرف ہوگئے اور پھر ہم دونوں (بڑابھائی اورمیں بیمار) بڑی آسانی سے ہم ٹرین میں داخل ہوگئے اور بڑے بھائی صاحب نے مجھے اوپر برتھ پر لٹا دیا اورمیں آرام کرنے لگا اوربڑے بھائی صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھ سے طبیعت کے متعلق پو چھتے رہے اس سے ان لوگوں یعنی ڈبہ کے دیگر جو مسا فر حضرات تھے ان میں ہمدردی کے جذبات بڑھ رہے تھے اور بڑی رحم بھری نظروں سے مجھے دیکھتے۔ شاید لوگ یہی کہتے ہونگے کہ کیساجوان بچہ ہے اور پتہ نہیں اسے کیا بیماری لاحق ہے۔ میں تو دل میں خوش تھا کہ بغیر محنت و مشقت برتھ لیٹنے کے لیے مل گیا۔ ہم دونوں بڑے خوش تھے اور آنکھوں میں ایک دوسرے کی ایکٹنگ پرداد دے رہے تھے کہ ناگاہ ہماری نظر ایک مسافر سکھ پر پڑی جو کہ لباس اور وضع قطع سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔
ان سردار جی نے ہاتھ میں ایک فروٹ کا تھیلا پکڑ اہوا تھا ۔ہمارے بھائی صاحب نے (لا لے )سردارجی سے علیک سلیک کے بعد گپ شپ شروع کردی۔ سردار جی لالے سے پوچھ رہے تھے کہ بچہ کیا بیمار ہے اسے کیا تکلیف ہے بھائی صاحب نے کوئی گول مول ساجواب دیا اور پھر ایک دم لالے نے غصہ کے انداز میں مجھ پر برسنا شروع کردیا کہ پہلے کہتے نااب میں کہا ں سے لاﺅں۔ تمہارے لیے ( اب میں سوچنے لگا کہ لالے کو کیا ہوگیا ہے) اکیلا لیکر آﺅں گاڑی نے اسٹیشن چھوڑ دیا ہے پہلے کہتے تو میں اسٹیشن پر سے کیلے لے لیتا۔ (اب میں سمجھا کہ لالے کی نظر سر دار جی کے فروٹ والے تھیلے پر پڑ گئی) (پشا ور میں لالہ بڑے بھائی کو کہتے ہیں) اب میں بھی اس کا ساتھ دیتے ہوئے ضد کرنے لگا نہیں میں نے کیلا ہی کھانا ہے اور بار بار ایک ہی مطالبہ تھا کہ سردار جی نے پوچھا بچہ کیوں ضد کررہا ہے اب چلتی گاڑی میں اسے کیلا کہاں سے لا کردوں۔ سردار جی نے کہا کہ بچہ ہے یہ لیں کیلے بچہ کو کیوں پریشان کرتے ہیں اور سردار جی نے کیلوں کی درجن سامنے کردی۔ بھائی صاحب نے فوراً ایک کی بجائے دو کیلے لے لیے ایک کیلا چھیل کر مجھے اور دوسرا خود ہڑپ کرگئے۔ سردار جی نے مروت بھرے لہجے میں کہا کہ ایک اور لے لیں ایک سے کیا ہوتاہے۔ اتنے میں نوشہرہ اسٹیشن پر ہم پہنچ گئے اس نے مجھے اشارہ کیا کہ سوجاﺅ اور میں نے آنکھیں بند کرلیں اور میں خاموش ہوکر سویا ہوا بن گیا اور کروٹ بدل کر مصنوعی سویا ہوا بن کر لیٹا رہا اور سوچنے لگا کہ اب یہ کوئی نیا ڈرامہ ہے اور سوچتا ہی رہا اور ٹرین نے نوشہرہ اسٹیشن چھوڑنا شروع کردیا میں نے کروٹ بدلی اور ہم نوشہرہ سے کافی دور نکل چکے تھے اب پھر اسی سوچ نے آگھیرا کہ اب کیا ہونے والا ہے کہ ایک دم میرے کان میں آواز آئی کہ ٹرین جب کھڑی تھی تو کہتے نا۔ میں اب مالٹے کہاں سے لاﺅں ٹھہرو شاید ابھی کو پھیری والا ادھر آنکلے تو میں آپ کو لے دونگا۔ ذرا صبر سے کام لو‘ اتنا لاڈلہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں ذرا سختی کروں تو والدہ صاحبہ کو شکایت کردیگا اور امی حضور میری کلا س لے لیں گی۔ میں تو چپ ہورہا ہوں اب میری سمجھ میں بات آگئی کہ یہ ڈرامہ مالٹوںکے لیے تھا اب مجھے ایک عجیب خیال دل میں آیا اور مجھے سردار جی کی شرافت کی وجہ سے ان سے ہمدردی ہوگئی اور واقعی سردار جی نے انتہائی شرافت اور بردباری کا ثبوت دیا کہ انہو ں نے فوراً ( لالہ جی کی منشا کے مطابق) مالٹے پیش کردئیے بھائی صاحب نے انکار کے ساتھ ہی دومالٹے لئے اور لگے کا ٹنے ایک مالٹے کے چارٹکڑے کرنے کے بعد دو ٹکڑے مجھے اور دو خود ہڑپ کرگئے اور ڈکار بھی نہیں مارا۔ بلکہ دوسرا مالٹا بھی اسی طرح خود اور مجھے دے کر سردار جی کا شکریہ ادا کیا۔
اب میرا ذہن کام کرنے لگا اور یکدم میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ سردار جی کو خو ش کیا جائے کیونکہ وہ بوجوہ شرافت اخلاص کا مظاہرہ تو کررہے تھے لیکن بھائی صاحب کی چالاکی کو سردار جی بخوبی سمجھ گئے تھے کہ یہ صاحب بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے میرے ٹوکرے کا آپریشن کررہے ہیں۔ ان کے چہرے سے صاف معلوم ہورہا تھا کہ سردار جی دل رکھنے کے لیے تواضع کررہے تھے مگر دل سے ناخوش تھے اب دوسرا ڈرامہ جو کہ اختتامی سین تھا وہ میرا اپنا تھا (میرے بھائی)کہ لالے نے دو عدد سردے (خربوزہ) جو کہ سردیو ں کے موسم میں تقریباً 55-50 تک پشاور آتا تھا۔ بڑا ہی میٹھا اور لذیذ ترین فروٹ تھا شاید اب اس کی کاشت نہیں ہوتی اب تو صرف گرمیوں میں گرما (خربوزہ) آتا ہے اور خوب آتا ہے وہ جو سردہ آتا تھا سائز میں موجودہ گرما سے چھوٹا اور گہرے زرد رنگ کا ہوتاتھا۔
لالہ جی ( بھائی صاحب ) نے 2 عدد سردے (بقول لالہ جی کے )کسی کے ہیں اور کسی دوسرے شخص کو دینے ہیں میرے ذاتی نہیں ہیں لیکن یہ سا را بیان اس نے بعد میں مجھے کہا لیکن میں نے بالکل پرواہ نہیں کی اورزور زور سے لالے لالے کہنا شروع کردیا تو لالے نے کہا کہ اب کیا افتاد آپڑی کہ چیخ رہے ہو تو میں نے کہا کہ لالے سردہ کھانا واں۔ لالے کی بولتی بند اور چہرے کا رنگ سر د ے کی طر ح زرد ہوگیا۔ سردار جی نے جب سردے کا سنا تو اس نے ایک دم کہا‘ کہ بچہ ہے کہاںہے سردے‘ تو اس وقت لالے نے وہ جو میں بیان کرچکا کہ یہ کسی کی امانت ہے اس کو پہنچانے ہیں‘ لیکن سردار تو سردار جی ہوتے ہیں فوراً کرپان نکالی اور دونوں سردوں کو اٹھا کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے مجھے خود سردار جی نے اور با قی سارے ڈبے میں جتنے تک ہوسکا سب کودیا اور لالے کو تو زبردستی دیا کہ یہ میرا ہی سمجھ کر کھالیں۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی اور اخلاص محبت رواداری سب کچھ اس واقعہ میں موجود ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں